میں کیوں یہ مارچ کر رہی ہوں ؟؟ کیونکہ میں اس معاشرے میں

میں کیوں یہ مارچ کر رہی ہوں ؟؟
کیونکہ میں اس معاشرے میں برابری چاہتی ہوں،
میں چاہتی ہوں وہ سب میری بیٹی یا میری نسل میں پیدا ہونے والی کسی بھی عورت کے ساتھ نا دہرایا جائے جو آج تک میں نے برداشت کیا ہے،
میں چاہتی ہوں کہ میری زندگی میں موجود مرد میرا شوہر میرا بیٹا میرے مدد نا کرے میرے ساتھ ذمہ داری بانٹے اور میں اس کے اوپر ذمہ داری نا بنو بلکہ میں بھی اسکی ذمہ داری بانٹو میں اس لیے مارچ کرنا چاہتی ہوں،
میں اس لیے بھی یہ مارچ کرنا چاہتی ہوں کہ میری زندگی کی گھٹن کم ہو سکے، میں مرضی کا بول سکوں، میں مرضی کا لکھ سکوں ، میں مرضی کا پہن سکوں اوڑھ سکوں، چل سکوں، جھوم سکوں گا سکوں، بے فکر ہو کر جی سکوں،
میں بتا سکوں کہ میرے ساتھ اس معاشرے میں کیا کیا ظلم ہو رہا ہے،
میں یہ مارچ اس لیے بھی کرنا چاہتی ہوں کہ
ہم عورتیں ایک دوسرے کے سنگ چلیں ایک دوسرے کی ہم جولی بنیں، طاقت بنیں، سہلیاں بنیں تاکہ اتنے عرصے سے ہمیں ایک دوسرے کے مخالف سمت کھڑا کر کے یہی بتایا گیا ہے عورت عورت کی دشمن ہوتی ہے وہ سب غلط ثابت ہو سکے،
میں اسلئے مارچ کرنا چاہتی ہوں کہ میری آزادی کو صرف جنسی آزادی یا مادر پدر آزادی کے ساتھ نا جوڑا جائے میری آذادی کو میرا پیدائشی حق سمجھا جائے، تب میرا جسم میری مرضی جیسی عام سی بات بھی سمجھ آ سکے گی،
اس لیے بھی مارچ کرنا چاہتی ہوں کہ پدر شاہی نظام کا خاتمہ ہو سکے ہم برابر کی شہری ہیں برابر کے حقوق رکھتی ہیں نا کم نا زیادہ،
میں اس لیے بھی مارچ کرنا چاہتی ہوں کہ ماں، بہن بیٹی، بیوی، کے علاوہ بھی میری کوئی پہچان ہے جس کو تسلیم کیا جانا چاہیے،
صدیوں سے شرم و حیا، صنف نازک اور عزت و احترام جیسے بوسیدہ لالی پاپ اب ہمارے کام کے نہیں رہے،
میں یہ مارچ اس لئے بھی کرنا چاہتی ہوں کہ
صدیوں سے عورت کا بوجھ ڈھوتے ان مردوں کو زہنی آزادی چاہیے جو نا چاہتے ہوئے بھی اس سماج کے گندے میلے کچیلے رسم و رواج کے نیچے دب کر زندگی گزارتے پورے کنبے کو پالتے رہتے ہیں بغیر دیکھے سوچے سمجھے کہ وہ کس چکی میں پس رہے ہیں، ان کے ذہن آزاد ہوں گے تو وہ اپنی زندگی میں موجود خواتین کو برابر کھڑا کریں گے ان کے لیے تعلیم کے مواقع پیدا کریں گے ان کی زندگی میں سہولتیں پیدا کریں گے تا کہ وہ ان پر بوجھ نا بنیں ، عورت معاشی طور پر آزاد ہو گی تو ہی وہ مضبوط ہو گی، پراعتماد ہو گی،
میں یہ مارچ اسلئے بھی کرنا چاہتی ہوں کہ خاندانی نظام زندگی اب بدل جانا چاہئیے جس میں مرد و عورت دونوں کا ایک جیسا استحصال ہو رہا ہے،
اور میں یہ مارچ انڈین مقبوضہ کشمیر میں بسنے والی ہر اس عورت کے لیے کرنا چاہتی ہوں جس نے اپنی زندگی میں بارود کی بو اور حفاظت کے نام پر گلیوں میں گھومنے والے وردی پہنے عزت نوچتے نام نہاد رکھوالوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، جس نے اپنی اولادیں ان چاہی لڑائی کے نذر کی ہیں جو روز جیتی اور روز مرتی ہیں ،

طاہرہ توقیر

Leave a comment